Friday 24 September 2021

ہے ورد جابجا میں کبوتر ہوں یار کا

 ہے وِرد جابجا میں کبوتر ہوں یار کا

دیتا رہوں صدا میں کبوتر ہوں یار کا

میرے قریب آ، میں کبوتر ہوں یار کا

آ میرے سنگ گا میں کبوتر ہوں یار کا

پروازِ عشق میری ہے خطرے سے بے نیاز

مجھ کو ہوا سے کیا، میں کبوتر ہوں یار کا

جس میں ہوائیں میرے مخالف ہوں میرے دوست

وہ آسمان لا، میں کبوتر ہوں یار کا

جو ہے لبوں کے درمیاں، مورے پیا مجھے

وہ رنگ تو لگا میں کبوتر ہوں یار کا

یہ سرحدیں، حدودِ جہاں، اور یہ جہاں

میں سب سے ماورا میں کبوتر ہوں یار کا

اس نفرتوں کے دور میں ہوتی اذان ہوں

ہوں درد کی صدا میں کبوتر ہوں یار کا

ہے بس زمینِ یار پہ ذرہ مِرا وجود

وہ فرش عشق کا، میں کبوتر ہوں یار کا

اپنا جہان دیکھ مِرے یار تُو مجھے

لاحُوت میں اُڑا میں کبوتر ہوں یار کا

جا دیکھ، گنبدِ شہِ والاﷺ کی چھاؤں میں

کہتا پِھرے خُدا؛ میں کبوتر ہوں یار کا

مجھ کو اُڑا دیا ہے مدینے سے یار نے

اب ہے نجف مِرا میں کبوتر ہوں یار کا

ہوں جب مزارِ یار پہ بیٹھا تو پھر مجھے

صحنِ حرم سے کیا میں کبوتر ہوں یار کا

میرے سفید پنکھ پہ شاہد ہے یہ لہو

میری ہے کربلا میں، کبوتر ہوں یار کا


احسن اقبال احمد

No comments:

Post a Comment