Friday 24 September 2021

کیسے مکیں کہاں پہ بسائے گئے ہیں یار

 کیسے مکیں، کہاں پہ بسائے گئے ہیں یار

ہم لوگ دُور دُور سے لائے گئے ہیں یار

اب تم سے قسمتوں کی لکیروں کا کیا کہوں 

کچھ لوگ ان میں لکھ کے مٹائے گئے ہیں یار

ہم عُجلتوں کی نذر ہوئے لوگ کیا کریں؟

دُکھ جن کے فُرصتوں میں بنائے گئے ہیں یار

اب تازگی کی اور وضاحت میں کیا کہیں 

پھولوں کو ان کے ہاتھ لگائے گئے ہیں یار

ماتھے کے بل کو سوچ کے جنبش میں لائیے

آئے نہیں ہیں شوق سے لائے گئے ہیں یار

کچھ اس لیے بھی سبزگی قائم نہ رہ سکی

ہم خشک سالیوں میں اُگائے گئے ہیں یار

 

مقدس ملک

No comments:

Post a Comment