کچھ غم خرید کر لیے خوشیوں کو بیچ کر
صدیوں کا بوجھ لے لیا لمحوں کو بیچ کر
کیا پوچھتے ہو زندگی کی واردات کا
میں دن گزار لیتا ہوں ہفتوں کو بیچ کر
اے ربِ ذوالجلال! تِری کائنات میں
ہم نے کِیا ہے عشق بھی جذبوں کو بیچ کر
ان کو خبر نہیں ہے کہ اچھا نہیں ہوا
یہ لوگ خوش ہیں آج درختوں کو بیچ کر
اس شہرِ التفات میں مخلص نہیں کوئی
مطلب نکالتے ہیں یہ رشتوں کو بیچ کر
اہلِ سخن میں آج کل ایسے بھی لوگ ہیں
روزی کما رہے ہیں جو لفظوں کو بیچ کر
مفلس کے پاس اور تو پونجی نہیں کوئی
بس جی رہا ہے قیس وہ سانسوں کو بیچ کر
جمیل احمد قیس
No comments:
Post a Comment