Friday 24 September 2021

کچھ غم خرید کر لیے خوشیوں کو بیچ کر

کچھ غم خرید کر لیے خوشیوں کو بیچ کر

صدیوں کا بوجھ لے لیا لمحوں کو بیچ کر

کیا پوچھتے ہو زندگی کی واردات کا

میں دن گزار لیتا ہوں ہفتوں کو بیچ کر

اے ربِ ذوالجلال! تِری کائنات میں

ہم نے کِیا ہے عشق بھی جذبوں کو بیچ کر

ان کو خبر نہیں ہے کہ اچھا نہیں ہوا

یہ لوگ خوش ہیں آج درختوں کو بیچ کر

اس شہرِ التفات میں مخلص نہیں کوئی

مطلب نکالتے ہیں یہ رشتوں کو بیچ کر

اہلِ سخن میں آج کل ایسے بھی لوگ ہیں

روزی کما رہے ہیں جو لفظوں کو بیچ کر

مفلس کے پاس اور تو پونجی نہیں کوئی

بس جی رہا ہے قیس وہ سانسوں کو بیچ کر


جمیل احمد قیس

No comments:

Post a Comment