ہدیۂ تبریک بر احمد فراز
مسلکِ عشق ہے یہ راہِ جنوں ہے یوں ہے
ذکر ان کا ہی فقط وجہِ سکوں ہے یوں ہے
یوں ہی ہوتا نہیں گرویدہ کسی کا کوئی
اس کے لہجے میں ہی جادو ہے، فسوں ہے یوں ہے
تیرے دیدار کی خاطر ہی بھٹکتا ہو گا
تیرا بیمار گلی میں تِری کیوں ہے یوں ہے
تُو اسے اور کسی بات پہ معمول نہ کر
تیری سچائی پہ سر میرا نگوں ہے یوں ہے
خامشی کا یہ سفر کیسا ہے وہ ہیں میں ہوں
اور لب پر نہ اُدھر ہاں نہ اِدھر ہوں ہے یوں ہے
گھر سے باہر نہ نکلنے کا سبب خاص نہیں
میرا گھر میرے لیے وجہِ سکوں ہے یوں ہے
آدمی کیا ہے سمجھ میں نہیں آیا پھر بھی
لاکھ سمجھایا مجھے لوگوں نے یوں ہے یوں ہے
کیوں نہیں بھاتا اسے کوئی سہانا منظر
سامنے اُس کے مِرا حالِ زبوں ہے یوں ہے
میں یہ کہتا نہیں مطلب مِرا یوں ہے یوں ہے
شفیق رائے پوری
No comments:
Post a Comment