میرے دل میں جو ہے عیاں ہو گا
آج پھر درد بے کراں ہو گا
شب کا دار و مدار ہے جس پر
اس کی دھڑکن کا امتحاں ہو گا
ہم نے بازی گری کہاں کی ہے
ہم سے کیوں دور آسماں ہو گا
میں نے اب سوچنا ہی چھوڑ دیا
کس گلی میں مِرا مکاں ہو گا
کون سی رُت کی ہے تلاش اسے
کون لمحے میں وہ عیاں ہو گا
میرا میں مجھ سے گر بچھڑ جائے
سارا منظر دھواں دھوں ہو گا
ڈھونڈتا ہوں میں روز خوابوں میں
میرا بچپن مگر کہاں ہو گا
عشق میرا ہے نامکمل کیوں
کیا مِرا میں ہی لا مکاں ہو گا
جھلملائیں گی شہر کی گلیاں
جب تِری لہر کا زیاں ہو گا
کھل کے ملتا نہیں فلک ساجد
مجھ سے کیوں، کون درمیاں ہو گا
ساجد حمید
No comments:
Post a Comment