Saturday, 6 November 2021

اگر سجدوں میں سوز دل نہیں ہے

اگر سجدوں میں سوز دل نہیں ہے

عبادت کا کوئی حاصل نہیں ہے

بھٹکنے سے بھی کچھ حاصل نہیں ہے

سفر کی جب کوئی منزل نہیں ہے

زبانِ حال سے کہتی ہیں لاشیں

محبت کا کوئی قائل نہیں ہے

اثر جس پر نہ ہو آہ و فغاں کا

وہ سچ مچ پیار کے قابل نہیں ہے

یقیناً وہ یہیں ہو گا کہیں پر

مِرا دل گمشدہ فائل نہیں ہے

مِری آنکھیں ہیں ماضی کا حوالہ

مِرے خوابوں میں مستقبل نہیں ہے

ہمارے دور میں شاید وفا بھی

نصاب عشق میں داخل نہیں ہے

کوئی عفریت گزرا ہے ادھر سے

یہاں لاشیں تو ہیں قاتل نہیں ہے

گریباں چاک ہے یاں ہر کسی کا

ِ کامل بھی اب کامل نہیں ہے

کوئی آیا نہیں مجھ کو بچانے

مجھے لگتا ہے یہ ساحل نہیں ہے

جسے تردید کرنے کی ہو عادت

وہ قائل ہو کے بھی قائل نہیں ہے

کسی پر تو یقیں کرنا پڑے گا

یہاں ہر شخص تو باطل نہیں ہے

صہیب اس بے وفا کا کیا کریں ہم

ہمارا دل 💖 ہمارا دل نہیں ہے


صہیب فاروقی

No comments:

Post a Comment