Friday, 5 November 2021

یہ کس کے تیر کا دل میں شگاف باقی ہے

 یہ کس کے تیر کا دل میں شگاف باقی ہے

خموش لب کا ابھی انکشاف باقی ہے

مخالفت سے سنورتی ہے زندگی میری

کوئی تو مجھ میں ہی میرے خلاف باقی ہے

تِرے چلن میں خطاؤں کا سلسلہ قائم

مِرے لبوں پہ بھی حرفِ معاف باقی ہے

صدی گزر گئی باطل کی تیغ ٹوٹے ہوئے

بس آن بان کا خالی غلاف باقی ہے

ہزار پریوں کے جھرمٹ میں شعر کہتی ہوں

مِری نظر میں ابھی کوہِ قاف باقی ہے

صمیمِ قلب سے وہ مجھ کو چاہتا ہے مگر

زباں سے کرنا ابھی اعتراف باقی ہے

ہزار بار وہ پامال ہو گئے نغمہ

مگر زباں پہ ابھی لام کاف باقی ہے


نغمہ نور

No comments:

Post a Comment