یہ کس کے تیر کا دل میں شگاف باقی ہے
خموش لب کا ابھی انکشاف باقی ہے
مخالفت سے سنورتی ہے زندگی میری
کوئی تو مجھ میں ہی میرے خلاف باقی ہے
تِرے چلن میں خطاؤں کا سلسلہ قائم
مِرے لبوں پہ بھی حرفِ معاف باقی ہے
صدی گزر گئی باطل کی تیغ ٹوٹے ہوئے
بس آن بان کا خالی غلاف باقی ہے
ہزار پریوں کے جھرمٹ میں شعر کہتی ہوں
مِری نظر میں ابھی کوہِ قاف باقی ہے
صمیمِ قلب سے وہ مجھ کو چاہتا ہے مگر
زباں سے کرنا ابھی اعتراف باقی ہے
ہزار بار وہ پامال ہو گئے نغمہ
مگر زباں پہ ابھی لام کاف باقی ہے
نغمہ نور
No comments:
Post a Comment