Saturday, 6 November 2021

کچے مکانوں کے در و دیوار ٹوٹتے

 کچے مکانوں کے در و دیوار ٹوٹتے

ہوتیں جو تیز آندھیاں اشجار ٹوٹتے

کرتیں فلک سے بات نہ اشیاء کی قیمتیں

یک بارگی اگر نہ خریدار ٹوٹتے

مقصود انتقام نہ تھا، ورنہ اے عدو

تیرے غرور بر سرِ بازار ٹوٹتے

مرنے کے بعد گو کہ پزیرائی کچھ ہوئی

تا زندگی مگر رہے فنکار ٹوٹتے

رہتے سلگتی دھوپ میں لمحوں کی ایک دن

جو ہنس رہے ہیں مجھ پہ مِرے یار، ٹوٹتے

اپنی جبیں سے رکھتے سجائے ہوئے اگر

کیوں کر بتاؤ گنبد و مینار ٹوٹتے

انجم عتابِ وقت میں شاید وہ گھر چکا

اب دِکھ رہے ہیں نشۂ مکار ٹوٹتے


رفیق انجم

No comments:

Post a Comment