Saturday, 6 November 2021

سب اصول زندگی بے کار ہو کے رہ گئے

سب اصول زندگی بے کار ہو کے رہ گئے

ہم اسیر کاکل دل دار ہو کے رہ گئے

حال دل نا قابل اظہار ہو کے رہ گیا

ہم کسی کے نخروں سے بیزار ہو کے رہ گئے

جانے والا چل بسا داغ جدائی دے گیا

اور سب احباب شبنم بار ہو کے رہ گئے

باعث عبرت ہے کیسے کیسے قد آور درخت

آندھیوں میں وقت کی ہموار ہو کے رہ گئے

جو شگوفے زینت گلزار تھے صاحب کبھی

پھول بن کے رونق بازار ہو کے رہ گئے

ہم سمجھتے تھے جنہیں سالار امن و آشتی

حیف وہ بھی سرخیٔ اخبار ہو کے رہ گئے

کیا ہمارے سائے میں آرام فرمائے کوئی

ہم تو بس گرتی ہوئی دیوار ہو کے رہ گئے

کیا شکایت کیجیے نامی کسی بےگانے کی

اپنے بھی تو باعث آزار ہو کے رہ گئے


نامی نادری

No comments:

Post a Comment