سب اصول زندگی بے کار ہو کے رہ گئے
ہم اسیر کاکل دل دار ہو کے رہ گئے
حال دل نا قابل اظہار ہو کے رہ گیا
ہم کسی کے نخروں سے بیزار ہو کے رہ گئے
جانے والا چل بسا داغ جدائی دے گیا
اور سب احباب شبنم بار ہو کے رہ گئے
باعث عبرت ہے کیسے کیسے قد آور درخت
آندھیوں میں وقت کی ہموار ہو کے رہ گئے
جو شگوفے زینت گلزار تھے صاحب کبھی
پھول بن کے رونق بازار ہو کے رہ گئے
ہم سمجھتے تھے جنہیں سالار امن و آشتی
حیف وہ بھی سرخیٔ اخبار ہو کے رہ گئے
کیا ہمارے سائے میں آرام فرمائے کوئی
ہم تو بس گرتی ہوئی دیوار ہو کے رہ گئے
کیا شکایت کیجیے نامی کسی بےگانے کی
اپنے بھی تو باعث آزار ہو کے رہ گئے
نامی نادری
No comments:
Post a Comment