نیند روز ہمیں خدا حافظ کہہ دیتی ہے
نیند چھوٹی چھوٹی نشیلی گولیوں میں
قید کر دی گئی ہے
اور ہم بے چینی کے جہاں میں
آزاد گھومتے ہیں
گیلے تکیوں کے نیچے
خواب ڈھونڈتے ہیں
نیند کئی پکارتی آنکھوں کو ٹھکرانے کے بعد
ہماری خاموش آنکھوں کو
قبول کیسے کرے
ہم رات کے مسافروں سے ملاقات کی
بھول کیسے کرے
ہم جیسے اناڑی لوگ
کچھ پانے کے نشے
کچھ کھونے کی جوئے بازی میں
سکون ہار جاتے ہیں
نیند وار دیتے ہیں
سمے کے اِس پار
اُس پار
کوئی آرزو مر جاتی ہے
نیند بچھڑ جاتی ہے
پھر کچھ خوابوں کے ٹکڑے
ادھوری تسلی دینے آتے ہیں
نیند کچھ پل کے لیے
ہمیں ملنے آئی تھی
حمیرا فضا
No comments:
Post a Comment