Thursday, 4 November 2021

ترے بغیر لگ رہا ہے یہ سفر خموش ہے

 تِرے بغیر لگ رہا ہے یہ سفر خموش ہے

ہوا تھمی ہوئی ہے اور رہگزر خموش ہے

ہیں اپنی اپنی جا پہ دونوں مضطرب کہ کیا کریں

تِری نگہ میں شور ہے، مِری نظر خموش ہے

تِری صدائیں آ نہیں رہی ہیں اس سکوت میں

کہ ہونٹ ہل رہے ہیں تیرے تُو مگر خموش ہے

پکارتا ہوں اپنے آپ کو کہ مر نہ جاؤں میں

مگر پکار پر مِری طرح نگر خموش ہے

کوئی تو گنگ رہ گیا کسی کو سانپ ڈس گیا

کہ بام چپ ہے در کھلا پڑا ہے گھر خموش ہے 


اعزاز کاظمی

No comments:

Post a Comment