تب کے کیا حاصلِ وفا ہو گا
عشق جب طالبِ سزا ہو گا
میں ہی شاید نہ سن سکا یا رب
اس نے کچھ تو مجھے کہا ہو گا
خود پرستی ہو جس کی فطرت میں
وہ تو بے شرم، بے حیا ہو گا
پھر محبت نہ کرنا چاہو گے
میرا فسانہ گر سنا ہو گا
غم مِرے ساتھ تھا ہمیشہ سے
اب کے وہ بھی ذرا خفا ہو گا
خواہشیں اور بڑھتی جائیں گی
کیا یہی حاصلِ دعا ہو گا
کس کہ آہٹ سنائی دیتی ہے
زخم شاید کوئی نیا ہو گا
تھی اسی دم پہ تھوڑی رعنائی
اب خیال اس کا بھی گیا ہو گا
کیسا ہر سمت یہ اندھیرا ہے
چاند شاید بجھا بجھا ہو گا
کیا کہا ظلم اس کی فطرت ہے
اس کو جانے دے وہ خدا ہو گا
آندھیوں کو بھی کر رہا روشن
کیسا وہ سر پھرا دیا ہو گا
موت جس کو لگے ہے دشمن سی
ہر گھڑی ڈر کے وہ جیا ہو گا
موت کا خوف وہ نہیں رکھتا
ایک لمحہ بھی جو جیا ہو گا
اپنی ہستی مٹا سکوں نادم
اس سے بڑھ کر جنون کیا ہو گا
سندیپ کول نادم
No comments:
Post a Comment