اک تم کہ دل میں درد کسی غیر کے لیے
اک ہم کہ درد بن گئے خود آپ کے لیے
ہم اپنے آشیانے میں تیرے منتظر
تم تنکے چُن رہے تھے کسی اور کے لیے
ہم جانتے ہیں دل میں تمہارے نہیں ہیں ہم
جو خط تمہاری آنکھوں میں تھے ہم نے پڑھ لیے
غم ہے کہ تُو نے لوٹ لیا اعتماد کو
اک داغ دے دئیے ہیں ہمیں عمر
قاتل کی سی ادا پہ بھی قربان جائیے
خود دے کے زہر آنکھوں میں آنسو بھی بھر لیے
تھی کون سی خطا کہ ملی جس کی یہ سزا
ہم نے تو عمر بھر تِرے نقشِ قدم لیے
عذرا یہ مانا بوجھ ہے اب تجھ پہ زندگی
پر زندگی تو تیری نہیں ہے تِرے لیے
عذرا عادل رشید
No comments:
Post a Comment