میں اس کی آنکھوں میں پانی کو دیکھ سکتی ہوں
مجھے یقین ہے اب وہ سدھرنے والا ہے
یہی دلاسہ میں دیتی ہوں رات بھر خود کو
کہ تھوڑی دیر میں سورج ابھرنے والا ہے
یہ جس حساب سے وعدہ خلافی کر رہا ہے
بہت ہی جلد وہ دل سے اترنے والا ہے
حدیں پھلانگ چکی ہوں تو اب یہ علم ہوا
گلی گلی میں وہ بدنام کرنے والا ہے
اسی خوشی میں مِری بھوک مر گئی آسی
مِری گلی سے کوئی اب گزرنے والا ہے
آسیہ شوکت آسی
No comments:
Post a Comment