چلی ہے آج فلک پر مِری فغاں کی بات
گئی کہاں سے کہاں تک غم نہاں کی بات
کلی کلی میں نہ پڑ جائے جان تو کہنا
چمن میں چھیڑ کے دیکھو مِری زباں کی بات
وہی قفس کی زباں بندیاں یہاں بھی ہیں
ہم آشیاں میں کریں کیسے آشیاں کی بات
مِری جبیں کے فسانے کو بھولنے والے
جو میں بھی بھول گیا تیرے آستاں کی بات
انہیں سے ان کے ستم کی کریں شکایت کیا
ہم آسماں سے کریں جور آسماں کی بات
ادائے جور کو نیند آ گئی، مگر مسلم
ہوئی نہ ختم ابھی میرے امتحاں کی بات
مسلم انصاری
No comments:
Post a Comment