میری آخری نظم
تخیل خود جہاں اپنی حدِ پرواز طے کر لے
جہاں لفظوں کا آہنگ خامشی کا ساز طے کر لے
جہاں ملبوسِ عریانی پہن کر حرف سجتے ہوں
جہاں پر حرف کی اوقات ہی کیا ظرف بکتے ہوں
جہاں رسمِ زباں بندی رضاکارانہ ٹھہری ہو
جہاں پر مصلحت کوشی رضاکارانہ ٹھہری ہو
جہاں باغی نگاہوں کی جسارت بھی ہو مصنوعی
جہاں شعلہ بیانوں کی حرارت بھی ہو مصنوعی
جہاں پر بے غرض چہروں پہ
حاجت مسکراتی ہو خباثت پر
جہاں خود ہی خباثت مسکراتی ہو
جہاں پر ویشیا سوچیں
جہاں گفتار رنڈی ہو
جہاں خود جبر کی لٹکی ہوئی تلوار رنڈی ہو
جہاں فنکار کا منصب فقط کارِ دلالی ہو
جہاں فن کے لبادے میں حرامی ہی حلالی ہو
جہاں تخلیق کو قرطاس میں کفنایا جاتا ہو
جہاں تحقیق کو سینوں میں ہی دفنایا جاتا ہو
قلم ٹھہرے علامت خود جہاں دانش فروشی کی
سیاہی روسیاہی ہو جہاں کاوش فروشی کی
جہاں اظہار کی ہر حد کا اندازہ شعوری ہو
گھٹن کی آخری سرحد کا اندازہ شعوری ہو
وہاں اے شاعری تجھ سے اجازت لینا چاہوں گا
مِری ہمدم جنوں کاری اجازت لینا چاہوں گا
کہ مجھ سے خود مِرے لفظوں کی بدکاری نہیں ہو گی
کہ مجھ سے فکر و فن کی یہ زنا کاری نہیں ہو گی
مبارک تم کو بدکارو تمہارا قحبہ خانہ ہو
مبارک قیدیو تم کو تمہارا قید خانہ ہو
مشتاق علی شان
No comments:
Post a Comment