کوچہ کوچہ ہے عداوت شہر میں
سر کہاں ہے اب سلامت شہر میں
مل سکے تو بس غنیمت جانیۓ
چند لمحوں کی رفاقت شہر میں
برگِ آوارہ نما ہے آج بھی
زندگی کی کیا ہے قیمت شہر میں
ہم سمندر کی طرح خاموش ہیں
اندر اندر ہے بغاوت شہر میں
ڈھونڈئیے تو ایک کمرہ بھی نہیں
ہے عمارت پر عمارت شہر میں
جیب خالی ہے مگر ہے دستیاب
زندگی کی ہر ضرورت شہر میں
تشنہ لب ہیں سب کے سب عنبر شمیم
کس سے کہیۓ دل کی حالت شہر میں
عنبر شمیم
No comments:
Post a Comment