صبحِ قیامت جاں سے گزرنے لگتی ہے
تیز چلوں تو سانس بکھرنے لگتی ہے
شہرِ جاں میں عشق کی شمعیں بجھتے ہی
قطرہ قطرہ رات اترنے لگتی ہے
کبھی کبھی یہ زخم کھلاتی پُروائی
رنگ مِری تصویر میں بھرنے لگتی ہے
رات کی آنکھیں بجھتے بجھتے محفل میں
پروانوں کی خاک بکھرنے لگتی ہے
اذنِ حضوری اس در سے مل جائے اگر
پتھر پہ تصویر ابھرنے لگتی ہے
اتنی خوش نظری بھی ساغر ٹھیک نہیں
آنکھ کبھی تعبیر سے ڈرنے لگتی ہے
امتیاز ساغر
No comments:
Post a Comment