Friday, 5 November 2021

حائل ہیں اشک راہ میں کیسے نظر ملے

 حائل ہیں اشک راہ میں کیسے نظر ملے

بارش اگر تھمے تو مسافر کو گھر ملے

آئے چراغ شام لگا لوں گلے تجھے

دونوں کو یہ امید نہیں ہے سحر ملے

دورِ جدید میں جو بڑھی فاصلوں کی بات

جی چاہتا نہیں کہ نظر سے نظر ملے

اب تو جنوں کے ہاتھ سے پتھر نکل گئے

اب ہم بھی چاہتے ہیں کہ شیشہ کا گھر ملے

صولت وہ کیا مقام تھا ساعت تھی کون سی

ٹھہرے ہوئے جہاں تمہیں شام و سحر ملے


صولت امام زیدی

No comments:

Post a Comment