Friday, 5 November 2021

لاکھ تیری ہی طرح کیوں نہ پرایا ہوتا

 لاکھ تیری ہی طرح کیوں نہ پرایا ہوتا

تجھ سا کوئی تو مِرے دھیان میں آیا ہوتا

وقت کے ساتھ تو چلتا ہے زمانہ سارا

وقت کے ساتھ مِری طرح نبھایا ہوتا

میں تِرے شہر میں تنہا ہوں نجانے کب سے

تُو نہ ہوتا،۔ تِری دیوار کا سایا ہوتا

کھلکھلاتے ہوئے لمحوں سے لپٹنے والو

رُوٹھنے والی رُتوں کو بھی منایا ہوتا

یوں تو ہر ایک شبستاں ہے منور تجھ سے

کبھی میرا بھی کوئی خواب سجایا ہوتا

لے گیا ساتھ اُڑا کر میری نیندیں پرواز

دھیان میں کاش نہ وہ شخص سمایا ہوتا


الطاف پرواز

No comments:

Post a Comment