Saturday, 6 November 2021

محبت کا نشہ بھی کیا نشہ ہے

 محبت کا نشہ بھی کیا نشہ ہے

جسے دیکھو وہی بہکا ہوا ہے

سبھی راتوں کو سو جاتے ہیں لیکن

یہ تنہا چاند ہی کیوں جاگا ہے

گھٹن محسوس ہوتی ہے سڑک پر

مگر کمرے میں اک تازہ ہوا ہے

بچھڑ جائیں نجانے کس گھڑی ہم

ہر اک لمحہ یہی دھڑکا لگا ہے

اُڑا لے جائے گی اپنی کہانی

بچو اس سے کہ یہ پاگل ہوا ہے

تجھے ہی چاہنے والے نہیں ہیں

مِری جاں کوئی مجھ پر بھی فدا ہے

خوشی سے آ تجھے سینے لگا لوں

سنا ہے تُو بہت مجھ سے خفا ہے

محبت میں تِری رسوا ہوا ہوں

مجھے تیرے سبب جانا گیا ہے

مِرے ہونٹوں کے اوراقوں پہ جاناں

تمہارا نام کس نے لکھ دیا ہے

مِرے خاطر تِری آنکھوں میں آنسو

محبت کی یہاں پر انتہا ہے


وفا نقوی

No comments:

Post a Comment