Saturday, 6 November 2021

اس کے ہر اک فراز سے لے کر نشیب تک

 اس کے ہر اک فراز سے لے کر نشیب تک

میں نے تو اس کو سونپ دیا ہے نصیب تک

بیمار آپ ہی کا ہوں کچھ کیجیۓ حضور

حتیٰ کہ یہ معاملہ پہنچے طبیب تک

یوں کر کے میرے حال پہ اعلانِ التفات

رہنے دیا نہ آپ نے مجھ کو غریب تک

دل سے نکل سکی نہ کسی پل تِری ہوس

پہنچا نہ یہ اسیر غزہ، تل ابیب تک

تسلیم ہم کہاں ہیں کہ ہر راہِ لطف و مہر

دستِ حبیب سے ہے دہانِ رقیب تک


تسلیم نیازی

No comments:

Post a Comment