اس کے ہر اک فراز سے لے کر نشیب تک
میں نے تو اس کو سونپ دیا ہے نصیب تک
بیمار آپ ہی کا ہوں کچھ کیجیۓ حضور
حتیٰ کہ یہ معاملہ پہنچے طبیب تک
یوں کر کے میرے حال پہ اعلانِ التفات
رہنے دیا نہ آپ نے مجھ کو غریب تک
دل سے نکل سکی نہ کسی پل تِری ہوس
پہنچا نہ یہ اسیر غزہ، تل ابیب تک
تسلیم ہم کہاں ہیں کہ ہر راہِ لطف و مہر
دستِ حبیب سے ہے دہانِ رقیب تک
تسلیم نیازی
No comments:
Post a Comment