دل کے گلدان میں اک خار چبھونے کے لیے
میں نے پایا ہی تھا کبھی کھونے کے لیے
میں تو تیراک تھا، ساحل نے سنبھالا مجھ کو
اس نے کیا کیا نہ کیا مجھ کو ڈبونے کے لیے
لاکھ پُروائی چلے،۔ ہجرکا موسم جاگے
اب کہاں وقت تِری یاد میں رونے کے لیے
کسی نے خوشبو کو، ہوا اور خدا کو دیکھا
ایک احساس مگر سب کا ہے ہونے کے لیے
زندگی کم ہے بہت کم ہے، بہت کم ہے مگر
اک غزل کافی ہے اس غم کو سمونے کے لیے
شمیم قاسمی
No comments:
Post a Comment