Saturday, 6 November 2021

اتر رہا تھا سمندر سراب کے اندر

 اتر رہا تھا سمندر سراب کے اندر

بچھڑ کے خود سے ملا جب میں خواب کے اندر

رگیں کھنچیں تو بدن خواب کی طرح ٹوٹا

خلا کا زعم بھرا تھا حباب کے اندر

میں ماہ و سال کا کب تک حساب لکھتا رہوں

اسیر پوری صدی ہے عذاب کے اندر

نظر کو فیض ملا تو لبوں پہ مہر لگی

فرات یوں بھی ملی ہے سراب کے اندر

عجب جنون مِری انگلیوں میں جاگا ہے

کہ خون ڈھونڈ رہی ہیں گلاب کے اندر


شارق عدیل

No comments:

Post a Comment