Sunday, 7 November 2021

شاخسانہ یہ کسی خواب کی تعبیر کا ہے

 شاخسانہ یہ کسی خواب کی تعبیر کا ہے

شور جو دل کی گلی میں کسی زنجیر کا ہے

اس کو قدرت سے طلب کرنا بڑی بات نہیں

مسئلہ ٹوٹے ہوئے اک خطِ تقدیر کا ہے

تتلیاں میری بیاضوں کے ورق چومتی ہیں

تم سے وابستہ کوئی حرف تو تحریر کا ہے

وقت کی گرد میں دب جائے گا رفتہ رفتہ

یوں تو روغن ابھی تازہ تِری تصویر کا ہے

وہ محبت میں نہیں رکھتا کوئی اپنی مثال

سارا جھگڑا تو مِری ذات کی توقیر کا ہے

زندگی تجھ سے تعلق ہی مجھے ہے کتنا

یہ تو گلیوں سے گزرنا کسی رہگیر کا ہے

ٹھہر چہرے سے اترنے دے ذرا گردِ ملال

حوصلہ جی کو نئے شہر کی تعمیر کا ہے


نرجس افروز زیدی

No comments:

Post a Comment