ڈھٹائی سے جو باطل بولتا ہے
وہ حق کو پا کے غافل بولتا ہے
پڑا رہنے دو ذلت کے گڑھے میں
بقدرِ ظرف کاہل بولتا ہے
مِرے احباب میں تھا وہ بھی کل تک
مخالف کے جو شامل بولتا ہے
حماقت بس کہ ہے بسیار گوئی
جو دانا ہے بمشکل بولتا ہے
عدالت ہے ہماری مُٹھیوں میں
سرِ اجلاس قاتل بولتا ہے
تلاطم کشتیوں کو راہ دے گا
خبر ہے گرم؛ ساحل بولتا ہے
قیامت کی نشانی ہے یہ انجم
کہ عالِم چُپ ہے جاہل بولتا ہے
رفیق انجم
No comments:
Post a Comment