Monday, 21 February 2022

میں مریض عشق و جنون ہوں مرے درد دل کی دوا کر

 میں مریضِ عشق و جنون ہوں، مِرے دردِ دل کی دوا کرو

ہوں اسیرِ چشمِ سِتم گراں، مجھے کربِ جاں سے رِہا کرو

مرے کُنجِ دل میں لگن ہے جو، لگی چاہتوں کی اگن ہے جو

مجھے اس تپش نے جلا دیا، کبھی تم بھی اس میں جلا کرو

کسی زرد رُت کی بہار میں، مِرے اُجڑے دل کے دیار میں

جہاں خار زار ہیں جا بجا، کوئی پھول بن کہ کھِلا کرو

جو یہ بُجھ گئے ہیں چراغِ رہ، تو ملے گا کیسے سراغِ رہ

بڑھی تیِر گی مِرے ہم نفس ، کسی حوصلے کی ضیا کرو

نہ کوئی تلاش نہ جستجو، نہ جگر تِرا ہے لہو لہو

جو غزل پھرے ہے یوں دربدر،نہ عدو سے اس کا گِلہ کرو


لبنیٰ غزل

No comments:

Post a Comment