کبھی سوچا نہ تھا
ہم شغل میں جسموں کی آتش جذب کرتے کرتے
اک دن راکھ ہو جائیں گے
چہرے خاک ہو جائیں گے
دنیا ہم پہ آوازے کَسے گی
کبھی سوچا نہ تھا
دیوارِ دل سے ٹیک لگ کر بیٹھنے والے
ہمیں مسمار کر دیں گے
دعا دیں گے خوشی کی اور ہمیں بیمار کر دیں گے
کبھی سوچا نہ تھا
وہ بد دعائیں جو کسی بد بخت کو دی تھیں
درختوں کی جڑیں تک کاٹ ڈالیں گی
ہماری بد دعائیں اپنے سینے میں قضا کا سانپ پالیں گی
کبھی سوچا نہ تھا
دن بھر ہم اس صحرا کی باتیں یاد کر کے
رات کو دریا بہا لیں گے
اگر نیند آئے گی تو اس سے
اپنے رتجگے کا خوں بہا لیں گے
کبھی سوچا نہ تھا
اس دھوپ چھاؤں کو نظر انداز کرتے کرتے
ہم کو موت آ جائے گی
تنہائی دلِ نادان کو دیمک کے دانتوں سے چبا جائے گی
ہاں، ہم نے کبھی سوچا نہ تھا
اُجلے بدن پر وحشتوں کی اوڑھنی اوڑھے
کوئی دل کے نہاں خانے میں ایسے پاؤں رکھے گا
اور اپنی تلملاتی مسکراہٹ سے
دلِ مضطر کے پتّے کاٹ دے گا
کبھی سوچا نہ تھا ہم نے
اسامہ خالد
No comments:
Post a Comment