Saturday, 30 July 2022

کبھی سوچا نہ تھا ہم نے

 کبھی سوچا نہ تھا

ہم شغل میں جسموں کی آتش جذب کرتے کرتے

اک دن راکھ ہو جائیں گے

چہرے خاک ہو جائیں گے

دنیا ہم پہ آوازے کَسے گی

کبھی سوچا نہ تھا

دیوارِ دل سے ٹیک لگ کر بیٹھنے والے

ہمیں مسمار کر دیں گے

دعا دیں گے خوشی کی اور ہمیں بیمار کر دیں گے

کبھی سوچا نہ تھا

وہ بد دعائیں جو کسی بد بخت کو دی تھیں

درختوں کی جڑیں تک کاٹ ڈالیں گی

ہماری بد دعائیں اپنے سینے میں قضا کا سانپ پالیں گی

کبھی سوچا نہ تھا

دن بھر ہم اس صحرا کی باتیں یاد کر کے

رات کو دریا بہا لیں گے

اگر نیند آئے گی تو اس سے 

اپنے رتجگے کا خوں بہا لیں گے

کبھی سوچا نہ تھا

اس دھوپ چھاؤں کو نظر انداز کرتے کرتے

ہم کو موت آ جائے گی

تنہائی دلِ نادان کو دیمک کے دانتوں سے چبا جائے گی

ہاں، ہم نے کبھی سوچا نہ تھا

اُجلے بدن پر وحشتوں کی اوڑھنی اوڑھے

کوئی دل کے نہاں خانے میں ایسے پاؤں رکھے گا

اور اپنی تلملاتی مسکراہٹ سے

دلِ مضطر کے پتّے کاٹ دے گا

کبھی سوچا نہ تھا ہم نے


اسامہ خالد

No comments:

Post a Comment