سوچتے سوچتے بپھر جانا
اور پھر ٹوٹ کر بکھر جانا
مُدتوں رہنا اچھے لوگوں میں
اور کچھ دیر تک سُدھر جانا
دیر تک سوچنا نہ جانے کا
آخری وقت پر مگر جانا
لے کے جائے اُدھر طلب ہم کو
دل نہیں چاہتا جدھر جانا
قصد کر لینا پہلے چُھٹی کا
اور پھر اُٹھ کے کام پر جانا
اک غلط فیصلے سے ممکن ہے
دو دھڑکتے دلوں کا مر جانا
ہم نے بھی ریگزار سے پہلے
ہر گُلستاں کو مُستقر جانا
عظمتِ حرفِ کُن پہ دھبہ ہے
پیڑ کا آدمی سے ڈر جانا
لُطف دیتا ہے وصلِ اول سا
ایک مدت کے بعد گھر جانا
دشت میں، مورنی سے بہتر ہے
ایک درویش کا گزر جانا
سب کرامت ہے پیاس کی عادل
ایسے موسم کا بے ثمر جانا
عادل حسین
No comments:
Post a Comment