بے نیازیاں
میں نے دستور کا توڑ کر ہر نِیَّم٭
اکڑی گردن میں آنے دیا یوں نہ خم
داستانیں میں ہر دم سناتا ہوا
گیت میں میں کا ہر آن گاتا ہوا
نیشنل ٹی وی کا میں جُگت باز تھا
جس میں آہنگ نہ تھا میں وہی ساز تھا
منہ جو کھولا تو سوئی ہوئی پُھلجھڑی
اک ادا سے اٹھی منہ کے بل گر پڑی
اس وطن میں رہے گی میری سلطنت
میں اکیلا ہوں سچا ہے دنیا غلط
آگہی کا امن کا اُٹھا بسترا
ہاتھ بندر کے جو آ گیا اُسترا
اس کو سمجھاؤ روکو یہ کہتا تھا جو
دوش غداریوں ہی کے سہتا تھا وہ
میرا ہر فیصلہ ہے عقل سے پرے
اس ادا پہ بھی لاکھوں کروڑوں مِرے
نہ دھرم بیچنے سے جو چُوکا کبھی
اور خود چاٹا اپنا ہی تُھوکا کبھی
میں وہ کمبخت ہوں میں وہ ناسور ہوں
اور اس پر ستم یہ کہ مغرور ہوں
اب مجھے چارہ گر تُو نہیں جانتا
تم نہیں چارہ گر میں نہیں مانتا
خواہشِ رائیگاں! تجھ کو کھونے چلا
اور نیّا سب ہی کی ڈبونے چلا
میرے چہرے پہ کالک ملی جائے گی
پر میرا غم کہ کُرسی چلی جائے گی
میں گزارش کسی سے کروں گا نہیں
دلِ معصوم کی ہے تمنا یہی
میرے احمق پَنے پر جو واہ واہ کرے
یا خدا! اس کے رکھنا تُو بُوٹے ہرے
ثمن ابرار
٭نِیّم (ہندی): اصول
No comments:
Post a Comment