اک ترے قرب کی خواہش میں اجالے ہوئے ہم
اب کہاں جائیں ترے دل کے نکالے ہوئے ہم
چشم حیراں میں کوئی خوابِ گریزاں بھی نہیں
در بدر پھرتے ہیں اشکوں کا سنبھالے ہوئے ہم
ایسے موسم میں تو کلیاں بھی نہیں کھلتی ہیں
ان رُتوں میں کفِ قاتل کے حوالے ہوئے ہم
اک طرف پیکرِ خوباں کے تراشے ہوئے لوگ
اک طرف درد کی تصویر میں ڈھالے ہوئے ہم
یہ محبت کا کرشمہ ہے کہ وحشت کا جنوں
چاند کو چاند کِیا، چاند کے ہالے ہوئے ہم
یہ بھی کیا کم ہے کہ فرقت کے زمانوں میں شکیل
تیری پہچان بنے، تیرے حوالے ہوئے ہم
شکیل اختر
No comments:
Post a Comment