کسی کے بنتے ہیں معبود بے زباں پتھر
کسی کے ہاتھ پہ ہوتے ہیں کلمہ خواں پتھر
نگاہ شوق بناتی ہے قیمتی، ورنہ
نگاہ عقل میں پتھر ہیں بے گماں پتھر
مجھ ایسا کون پرستار ہو گا وحدت کا
صنم کدے میں ہے دل، دل میں ہے نہاں پتھر
وبالِ جان ہی بن جائے گا کمالِ سخن
نصیب سے جو ہوئے اپنے دودماں پتھر
دُعائے نیم شبی رائیگاں نہیں جاتی
یہ شہریار کا مصرع ہے کیا گراں پتھر
تمہارے نام کی جس دم صدا لگاتا ہوں
تو سرخرو مجھے کرتے ہیں مہرباں پتھر
بناوٹی ہے محل اور جھونپڑی کا فرق
سبھی کے آخری گھر کا ہے جب نشاں پتھر
صائب جعفری
No comments:
Post a Comment