Saturday 30 July 2022

کل مدعی کو آپ پہ کیا کیا گماں رہے

کل مدعی کو آپ پہ کیا کیا گماں رہے

بات اس کی کاٹتے رہے اور ہمزباں رہے

یارانِ تیز گام نے محمل کو جا لیا

ہم محوِ نالۂ جرسِ کارواں رہے

یا کھینچ لائے دیر سے رندوں کو اہلِ وعظ

یا آپ بھی ملازمِ پیرِ مغاں رہے

وصلِ مدام سے بھی ہماری بجھی نہ پیاس

ڈوبے ہم آبِ خضر میں اور نیم جاں رہے

کل کی خبر غلط ہو تو جھوٹے کا رُو سیاہ

تم مدعی کے گھر رہے اور میہماں رہے

دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام

کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے

حالی کے بعد کوئی نہ ہمدرد پھر ملا

کچھ راز تھے کہ دل میں ہمارے نہاں رہے


الطاف حسین حالی

No comments:

Post a Comment