Monday, 25 July 2022

پھر ہوئی شام بیابان کو پاگل نکلا

 پھر ہوئی شام، بیابان کو پاگل نکلا

ہاتھ میں لے کے چراغ دل بیکل نکلا

تیری محفل کو سجانے کئی جگنو آئے

چاند لہرا کے شب تار کا آنچل نکلا

عمر بھر کر کے سفر ہم جو وہاں تک پہنچے

ہائے قسمت، کہ وہ دروازہ مقفل نکلا

یاں تو مذہب بھی ہے تہذیب و تمدن پھر بھی

میں جسے شہر سمجھتا تھا، وہ جنگل نکلا

یوں گِرانی نے طبیعت کی ستایا شب بھر

آنکھ سے اشک جو نکلا بھی تو بوجھل نکلا

تُو نے سر مانگا تو اس شہر میں سب سے پہلے

سر بکف تیرا دِوانہ سُوئے مقتل نکلا

روشنی کے لیے جب دل کو جلایا ہم نے

دل سے نکلا تو دھوئیں کا کوئی بادل نکلا

ہم کو تحفے میں جو بخشی گئی اک عمر طویل

وقت کے تول میں تولا تو وہ اک پل نکلا

وقت رخصت ہوئیں دلہن کی جو آنکھیں بوجھل

قطرۂ اشک میں لپٹا ہوا کاجل نکلا

اس نے جو آبِ بقا کہہ کے دیا تھا فرحت

میرے تو واسطے وہ زہرِ ہلاہل نکلا


فرحت حسنی

No comments:

Post a Comment