جسم تمام اشتہا، عشق میں اشتہا نہ کر
جسم کے ساتھ چل مگر، جسم پہ اکتفا نہ کر
خواہش و خواب و اہتمام، یار پہ چھوڑ دے تمام
یار کا دھیان کر فقط، یار سے التجا نہ کر
واعظِ دل گریز! سن، میرا معاملہ ہے اور
اپنی ہی عاقبت سنوار، میرے لیے دعا نہ کر
عشق ہے راہِ مستقیم، راہ بھی مستقل کٹھن
نازکِ صبر سوچ لے، عجلتِ ابتدا نہ کر
میں ہی ہوں اسم اور جسم، میں ہی ہوں چاک کا طلسم
دیکھ بگاڑ مت مجھے، دیکھ مجھے خفا نہ کر
اپنے وجود سے علی! غیب نہیں رہا تو اب
خلق کو حال مت سنا، بھید کو ماجرا نہ کر
علی زریون
No comments:
Post a Comment