دام پھیلائے ہوئے حرص و ہوا ہیں کتنے
ایک بندہ ہے، مگر اس کے خدا ہیں کتنے
ایک اک ذرے میں پوشیدہ ہیں کتنے خورشید
ایک اک قطرے میں طوفان بپا ہیں کتنے
چند ہنستے ہوئے پھولوں کا چمن نام نہیں
غور سے دیکھ کہ پامال صبا ہیں کتنے
ان سے ناکردہ جفاؤں کا کیا تھا اصرار
اتنی ہی بات پہ وہ ہم سے خفا ہیں کتنے
گامزن ہو کے یہ عقدہ تو کھلا ہے روشن
راہزن کتنے ہیں، اور راہنما ہیں کتنے
روشن نگینوی
No comments:
Post a Comment