ہوا کا زور تھا اشجار شور کرنے لگے
میں چل پڑا تو مِرے یار شور کرنے لگے
تُنک مزاج ہوا گرد اُڑانے آئی تھی
چراغ طاق میں بیکار شور کرنے لگے
ہمیں تو کر دیا خاموش حُسنِ یوسف نے
ہماری جیب کے دینار شور کرنے لگے
کبھی تو ایسا کوئی وقت زندگی دیکھے
میں چُپ رہوں مِرا کردار شور کرنے لگے
نسیمِ صبحِ بہاراں گزرنے والی تھی
بلائے حبس کے آزار شور کرنے لگے
شبِ فراق مِری آنکھیں شور کرتی رہیں
شبِ وصال تھی، رُخسار شور کرنے لگے
مکان آگ نے مصلوب کر دیا سالف
مکیں تھے چُپ در و دیوار شور کرنے لگے
شاہجہان سالف
No comments:
Post a Comment