نبضِ بیمار جو اے رشکِ مسیحا دیکھی
آج کیا آپ نے جاتی ہوئی دنیا دیکھی
لے چلے باغِ جناں میں جو فرشتے ہم کو
دیر تک راہ تِری او گلِ رعنا! دیکھی
ہر جگہ وضع نئی، چال نئی، لوگ نئے
ہم تو جس شہر میں پہنچے نئی دنیا دیکھی
سب چلے جاتے ہیں کچھ ملکِ عدم دُور نہیں
دیکھنا ہم بھی پہنچ جائیں گے دیکھا دیکھی
خندۂ گُل ہے کہیں،۔ نالۂ بلبل ہے کہیں
سیر اس گُلشنِ ایجاد میں کیا کیا دیکھی
عشق بازی کی خُو یہ ہے کہ لگی دل پہ چوٹ
چلتے پھرتے جو کوئی صورتِ زیبا دیکھی
دیدۂ دل سے نظر کی رخ جاناں پر اسیر
چشم موسٰی سے صفائے یدِ بیضا دیکھی
اسیر لکھنوی
No comments:
Post a Comment