ایسا نہیں کہ بات کا معنی بدل گیا
وہ حرف گر تو ساری کہانی بدل گیا
ہم دونوں ایک شعر کے مصرعے تھے اور پھر
اول کو ٹھیک کرنے میں ثانی بدل گیا
ہم کاغذات لاٸے تھے سب دستخط شدہ
قانون سارے پر وہ زبانی بدل گیا
اس شخص کو کمال تھا ہر چال چلنے میں
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے رانی بدل گیا
یہ جھیل مشک اب تو لٹاتی ہے روز و شب
جو پیر دھوٸے تم نے تو پانی بدل گیا
یہ کس نے دل کو سستی پہ ماٸل کیا حیا
یہ کون پھر لہو کی روانی بدل گیا
ماہم حیا صفدر
No comments:
Post a Comment