Monday, 25 July 2022

ایسا نہیں کہ بات کا معنی بدل گیا

 ایسا نہیں کہ بات کا معنی بدل گیا

وہ حرف گر تو ساری کہانی بدل گیا

ہم دونوں ایک شعر کے مصرعے تھے اور پھر

اول کو ٹھیک کرنے میں ثانی بدل گیا

ہم کاغذات لاٸے تھے سب دستخط شدہ

قانون سارے پر وہ زبانی بدل گیا

اس شخص کو کمال تھا ہر چال چلنے میں

آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے رانی بدل گیا

یہ جھیل مشک اب تو لٹاتی ہے روز و شب

جو پیر دھوٸے تم نے تو پانی بدل گیا

یہ کس نے دل کو سستی پہ ماٸل کیا حیا

یہ کون پھر لہو کی روانی بدل گیا


ماہم حیا صفدر

No comments:

Post a Comment