Sunday, 24 July 2022

خرابی کچھ نہ پوچھو ملکت دل کی عمارت کی

 خرابی کچھ نہ پوچھو ملکتِ دل کی عمارت کی

غموں نے آج کل سُنیو وہ آبادی ہی غارت کی

نگاہِ مست سے جب چشم نے اس کی اشارت کی

حلاوت مے کی اور بنیاد مےخانے کی غارت کی

سحرگہ میں نے پوچھا گل سے حالِ زار بلبل کا

پڑے تھے باغ میں یک مشت پر اودھر اشارت کی

جلایا جس تجلی جلوہ گر نے طور کو ہمدم

اسی آتش کے پرکالے نے ہم سے بھی شرارت کی

نزاکت کیا کہوں خورشید رو کی کل شبِ مہ میں

گیا تھا سائے سائے باغ تک تس پر حرارت کی

نظر سے جس کی یوسف سا گیا پھر اس کو کیا سُوجھے

حقیقت کچھ نہ پوچھو پیرِ کنعاں کی بصارت کی

تِرے کوچے کے شوقِ طوف میں جیسے بگولا تھا

بیاباں میں غبارِ میرؔ کی ہم نے زیارت کی


میر تقی میر

No comments:

Post a Comment