Sunday, 31 July 2022

ساز آہستہ ذرا گردش جام آہستہ

 ساز آہستہ، ذرا گردشِ جام آہستہ

جانے کیا آئے نگاہوں کا پیام آہستہ

چاند اُترا کہ اُتر آئے ستارے دل میں

خواب میں ہونٹوں پہ آیا تِرا نام آہستہ

کُوئے جاناں میں قدم پڑتے ہیں ہلکے ہلکے

آشیانے کی طرف طائرِ بام آہستہ

ان کے پہلو کے مہکتے ہوئے شاداں جھونکے

یوں چلے جیسے شرابی کا خرام آہستہ

اور بھی بیٹھے ہیں اے دل ذرا آہستہ دھڑک

بزم ہے پہلو بہ پہلو ہے کلام آہستہ

یہ تمنا ہے کہ اُڑتی ہوئی منزل کا غبار

صبح کے پردے میں یاد آ گئی شام آہستہ


مخدوم محی الدین

No comments:

Post a Comment