Sunday, 31 July 2022

جسے خود سے جدا رکھا نہیں ہے

جسے خود سے جدا رکھا نہیں ہے

وہ میرا ہے، مگر میرا نہیں ہے

جسے کھونے کا مجھ کو ڈر ہے اتنا

اسے میں نے ابھی پایا نہیں ہے

نقوش اب ذہن سے مٹنے لگے ہیں

بہت دن سے اسے دیکھا نہیں ہے

سنا ہے پھول اب کِھلتے نہیں ہیں

تو کیا کھل کر وہ اب ہنستا نہیں ہے

نگر چھوڑا ہے جب سے اس غزل نے

کوئی شاعر غزل کہتا نہیں ہے

تِری یادوں سے روشن ہے مرا دل

یہ وہ سورج ہے جو ڈھلتا نہیں ہے

مِری آنکھوں کا یہ دریا عجب ہے

کہ بہتا ہے تو پھر تھمتا نہیں ہے

خوشی کا ہو کوئی یا غم کا لمحہ

گزر جاتا ہے کیوں رکتا نہیں ہے

صبیح و خوبرو چہرے کئی ہیں

مگر کوئی بھی اس جیسا نہیں ہے


صبیح الدین شعیبی

No comments:

Post a Comment