جو برق سی دوڑا دے مِلت کے جوانوں میں
وہ سوز نہیں باقی واعظ کے بیانوں میں
معتوب ہوئے ہیں ہم کچھ ایسے زمانوں میں
جب تیر ہیں پتھر کے شیشے کی کمانوں میں
یا ذہن ہیں یخ بستہ، یا مردہ ضمیری ہے
یا سوز نہیں باقی، مُلا کی اذانوں میں
تثلیت کے قائل تو مریخ پہ جا پہنچے
توحید کے وارث ہیں وہموں میں گمانوں میں
برسات کا پانی تو رحمت ہے، مگر سوچو
اک حشر بپا ہو گا پھر کچّے مکانوں میں
حنیف شباب
No comments:
Post a Comment