Sunday 31 July 2022

حرص کے باعث گرفتار بلا پھرتے ہیں ہم

 حرص کے باعث گرفتارِ بلا پھرتے ہیں ہم

کچھ عجائب مخمصوں میں مبتلا پھرتے ہیں ہم

قافلہ سب ساتھیوں کا حیف آگے بڑھ گیا

خاک اڑاتے دشت میں مثلِ صبا پھرتے ہیں ہم

یاں کوئی ہمراز ہے اپنا نہ کوئی ہم سخن

چپکے چپکے اپنی دھن میں جا بجا پھرتے ہیں ہم

نیک ہو یا بد کسی سے بھی نہیں اپنا بگاڑ

اور بظاہر یوں تو سب سے ہی خفا پھرتے ہیں ہم

شامتِ اعمال سے پڑتے ہیں جب ادبار میں

پھر بھلا کب صورتِ تیر قضا پھرتے ہیں ہم

گردشِ ایام نے یاں تک ہمیں چکرا دیا

کچھ نہیں معلوم سر پھرتا ہے یا پھرتے ہیں ہم

سب بھلے ہیں پر کسی سے کچھ خدا ڈالے نہ کام

مانگتے شبیر! در در یہ دعا پھرتے ہیں ہم


سید علی شبیر

No comments:

Post a Comment