ہر دم شگفتہ تر جو ہنسی میں دہن ہوا
غنچہ سے پہلے گل ہوا گل سے چمن ہوا
زاہد ہوا،۔ اسام ہوا،۔ برہمن ہوا
اس رہ میں رہنما جو بنا راہزن ہوا
صورت بدل گئی کوئی پہچانتا نہیں
عاشق تِرا وطن میں غریب الوطن ہوا
قد سرو نرگس آنکھ دہن غنچہ گل عذار
جلوہ سے اس کے خانۂ ویراں چمن ہوا
غیروں نے بیٹھنے نہ دیا جب کہیں مجھے
میں انجمن میں منتظم انجمن ہوا
طبع جفا شعار کی تفریح کے لئے
نالہ مِرا ترانۂ مرغ چمن ہوا
مشتاقؔ صوفیوں میں تو تائب ہوا تھا کل
سنتا ہوں آج رندوں میں توبہ شکن ہوا
مشتاق دہلوی
منشی بہاری لال
No comments:
Post a Comment