Wednesday 20 July 2022

خاموشیوں میں شور تو آہ و بکا کا تھا

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ


 خاموشیوں میں شور تو آہ و بکا کا تھا

لیکن سکون چہرے سے ظاہر بلا کا تھا

اٹھتا تھا اس کے دل میں بھی اندوہناک غم 

پابند پھر بھی رہتا وہ تیری رضا کا تھا

یوسف کنویں میں رہ کے ہی مشہور ہوتے ہیں

خود کو مٹانا گویا کہ سودا بقا کا تھا

بیٹا خلیلؑ کا چُھری کے نیچے آ گیا

یہ امتحان عشق کی بس انتہا کا تھا

سر کو کٹا کے نیزے پہ قرآن جو پڑھے

پہچان لو وہ بیٹا رسولِ خداﷺ کا تھا

یونہی نہیں تھا دھڑکا یہ پاگل سا دل مرا 

"انداز ہو بہو تِری آواز پا کا تھا"

لکھتے ہوئے غزل ابھی زاہد کو یوں لگا

کاغذ قلم کو فکر سبھی کربلا کا تھا


عبداللہ مطہری

No comments:

Post a Comment