تم ایک کھوئی ہوئی نسل ہو
گمشدہ لوگ اتنی تعداد میں
اتنی تیزی سے جوان ہوتے ہوئے
شہر کی گلیاں تمہارے قدموں سے بھر گئی ہیں
تم اتنی تیزی سے اِدھر اُدھر جا رہے ہو
تم کہیں نہیں جا رہے ہو
تم کیوں جوان ہوئے ہو؟
محبت، جنس، آزادی
تمہارے لیے یہاں موجود نہیں ہے
تم ایک کھوئی ہوئی نسل ہو
تم سب اندر سے ایک ہو
اداس، اکیلے، ٹوٹے ہوئے
تم ایک دوسرے کا متبادل نہیں ہو سکتے ہو
روتے روتے، تمہیں ماں چپ نہیں کرا سکتی
ہنستے ہنستے، تمہیں موت ڈرا نہیں سکتی
تم مرنے کا تہیہ کئے بیٹھے ہو
خود کشی تمہارے دماغ میں
شاعری کی طرح سرگوشی کرتی ہے
اسے تم لکھے بغیر جانے نہیں دو گے
اپنے بعد تم ایک نثری نظم میں ملو گے
طاہر راجپوت
No comments:
Post a Comment