اب تم بھی پلٹنے کا سوچو
ہیں سردیاں پلٹنے کو
اب تم بھی پلٹنے کا سوچو
تنہا گزرے کتنے موسم
تم لوٹے نہ میرے ہمدم
جن پر ہم سنگ سنگ چلتے تھے
وہ راہیں ادھوری ہیں جاناں
والہانہ لپٹنے کو تم سے
میری بانہیں ادھوری ہیں جاناں
میری آنکھیں رستہ تکتی ہیں
اب پتھر بھی ہو سکتی ہیں
اب اِتنا مجھے ستاؤ نہ
تم جلدی لوٹ کے آؤ نا
ہیں سردیاں پلٹنے کو
اب تم بھی پلٹنے کا سوچو
طارق اقبال حاوی
No comments:
Post a Comment