توقعات کے اب سلسلے نہیں رکھنے
ملال رکھیں نہ رکھیں، گلے نہیں رکھنے
یہ طے کیا ہے کہ فہرستِ زندگانی میں
جو لوگ باعثِ آزار تھے، نہیں رکھنے
کھلا رہے گا درِ رسم و راہ، لیکن اب
چراغ اس میں کسی نام کے نہیں رکھنے
تعلقات خزاؤں کی زد میں ہیں تو کیا
یہ پیڑ ویسے بھی مجھ کو ہرے نہیں رکھنے
جسے بھی جانا ہے جائے اسی اجالے میں
چراغِ خیمۂ یاراں بُجھے نہیں رکھنے
ترستی رہنا مِرے لمس کو ہوائے وصال
کواڑ رکھے بھی اب تو کُھلے نہیں رکھنے
جو عین وقت پہ خالی ملیں ظہیر مجھے
سجا کے صحن میں ایسے گھڑے نہیں رکھنے
ظہیر مشتاق
No comments:
Post a Comment