Thursday, 28 July 2022

باب شکستگی سے گزارا گیا مجھے

بابِ شکستگی سے گُزارا گیا مُجھے

مجبوریوں کے نام پہ ہارا گیا مجھے

پہلے کیا گیا مجھے یکتائے رنگ و بُو

پھر رنج کی تہوں میں اُتارا گیا مجھے

تو اضطراب میں ہی لیا ہو گا مِرا نام

ورنہ کبھی سکوں میں پکارا گیا مجھے؟

ماتھے پہ لکھ دیا گیا اُس خُوش ادا کا ہجر

اور ہجر کے دروں میں سنوارا گیا مجھے

پیروں کو روکتی رہی آوازِ رفتگاں

صحرائے خاک و خُوں میں اُتارا گیا مجھے

اک پل صراطِ بخت سے مجھ کو لپیٹ کر

چھاؤں میں ڈال ڈال کے مارا گیا مجھے

اب مجھ میں ڈھونڈئیے نہ نشاں شہرِ ذات کا

ہجرت کے روزنوں میں نتھارا گیا مجھے

اس سے بھی دل کا ساتھ کوئی دیر ہی رہا

جس، خواب کے فسُوں میں اُتارا گیا مجھے

بے ماجرہ نہ ہونے دیا دل نے واقعہ

حالانکہ لاکھ اس پہ اُبھارا گیا مجھے


آئلہ طاہر

No comments:

Post a Comment