ہمیں جو ضبط کا حاصل کمال ہو جائے
ہمارا عشق بھی جنت مثال ہو جائے
سنا ہے تم کو سلیقہ ہے زخم بھرنے کا
ہمارے گھاؤ کا بھی اِندمال ہو جائے
ذرا سی اس کے رویے میں گر کمی دیکھیں
طرح طرح کا ہمیں احتمال ہو جائے
چلا تھا کھوکھلی کرنے جڑیں وطن کی جو
گیا ہے منہ کی وہ کھا کر، دھمال ہو جائے
پھر اس کے بعد کبھی بھی دراڑ آنے نہ دوں
بس ایک بار تعلق بحال ہو جائے
سکونِ قلب جسے تم خیال کرتے ہو
بہت قرِیں ہے کہ دل کا وبال ہو جائے
کسی کے صبر کا ایسے بھی امتحان نہ لو
تڑپ کے روح الم سے نڈھال ہو جائے
یہ اختلاط ہمیں کر رہا ہے خوفزدہ
کمی نہِیں بھی اگر اعتدال ہو جائے
کمان کھینچے ہوئے ہے جو آج وقت رشید
عجب نہِیں کہ یہی کل کو ڈھال ہو جائے
رشید حسرت
No comments:
Post a Comment