Monday, 25 July 2022

ہمیں جو ضبط کا حاصل کمال ہو جائے

 ہمیں جو ضبط کا حاصل کمال ہو جائے

ہمارا عشق بھی جنت مثال ہو جائے

سنا ہے تم کو سلیقہ ہے زخم بھرنے کا

ہمارے گھاؤ کا بھی اِندمال ہو جائے

ذرا سی اس کے رویے میں گر کمی دیکھیں

طرح طرح کا ہمیں احتمال ہو جائے

چلا تھا کھوکھلی کرنے جڑیں وطن کی جو

گیا ہے منہ کی وہ کھا کر، دھمال ہو جائے

پھر اس کے بعد کبھی بھی دراڑ آنے نہ دوں

بس ایک بار تعلق بحال ہو جائے

سکونِ قلب جسے تم خیال کرتے ہو

بہت قرِیں ہے کہ دل کا وبال ہو جائے

کسی کے صبر کا ایسے بھی امتحان نہ لو

تڑپ کے روح الم سے نڈھال ہو جائے

یہ اختلاط ہمیں کر رہا ہے خوفزدہ

کمی نہِیں بھی اگر اعتدال ہو جائے

کمان کھینچے ہوئے ہے جو آج وقت رشید 

عجب نہِیں کہ یہی کل کو ڈھال ہو جائے


رشید حسرت

No comments:

Post a Comment