کتنی تاریکی ہے رنگوں سے سجے شہروں میں
کوئی بُھولے سے بھی آ کر نہ بسے شہروں میں
دن کو بھی شکل کوئی آتی نہیں صاف نظر
روشنی میں بھی اندھیرے ہیں چھپے شہروں میں
پیرہن اُجلے دمکتے ہوئے چہرے ہر سُو
دل مگر درد سے بے گانہ ملے شہروں میں
کار کے چلنے کی آواز کے پیچھے دوڑیں
دل کی فریاد کو کوئی نہ سنے شہروں میں
ہر قدم پر ہے نیا موڑ، نئی راہگزر
کوئی کیونکر نہ بھٹکتا ہی رہے شہروں میں
جانے کس طرح سے ہنس لیتے ہیں شہروں والے
ہم تو ہر گام پہ روتے ہی رہے شہروں میں
کتنے آزاد تھے قصبوں کی فضا میں جرار
راستے خوف سے ہر سُو ہیں بھرے شہروں میں
آغا جرار
No comments:
Post a Comment